گر کوئی بندہ اہلِ لیاقت نہیں رہا |
پھر کیسے اعتبار و صداقت نہیں رہا |
بے التفاتی ہونے لگے پیار میں اگر |
تو آشنائے جزبہ الفت نہیں رہا |
اسلاف کا زمانہ بڑا خیر کا رہا |
فی الوقت ویسا فہم و فراست نہیں رہا |
رہبر جو خیر خواہ ہوں ناپید ہو چلے |
قابل بھی شخص کوئی قیادت نہیں رہا |
انداز سے ہی کچھ ہوا محسوس اس طرح |
وہ واقِفِ اُصول و اطاعت نہیں رہا |
تقدیر تو نکھرتے ہیں محنت سے ساروں کے |
کوشش کرے تو شومئ قسمت نہیں رہا |
منزل کی جستجو بسے ناصؔر بھی دل میں جب |
راہِ فرار تب کسی صورت نہیں رہا |
معلومات