گر کوئی بندہ اہلِ لیاقت نہیں رہا
پھر کیسے اعتبار و صداقت نہیں رہا
بے التفاتی ہونے لگے پیار میں اگر
تو آشنائے جزبہ الفت نہیں رہا
اسلاف کا زمانہ بڑا خیر کا رہا
فی الوقت ویسا فہم و فراست نہیں رہا
رہبر جو خیر خواہ ہوں ناپید ہو چلے
قابل بھی شخص کوئی قیادت نہیں رہا
انداز سے ہی کچھ ہوا محسوس اس طرح
وہ واقِفِ اُصول و اطاعت نہیں رہا
تقدیر تو نکھرتے ہیں محنت سے ساروں کے
کوشش کرے تو شومئ قسمت نہیں رہا
منزل کی جستجو بسے ناصؔر بھی دل میں جب
راہِ فرار تب کسی صورت نہیں رہا

0
54