ہم مسافر آ گئے مستانہ تیرے شہر میں |
لوگ سمجھے ہیں ہمیں بیگانہ تیرے شہر میں |
آ گئے ہیں پی کے جائیں گے یہاں دو چار جام |
دی خبر ساقی نے ہے مے خانہ تیرے شہر میں |
اُن کی مت پوچھو ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں جاں |
پیش کر دیتے ہیں جو نذرانہ تیرے شہر میں |
اب محبّت پر یقیں آ جائے گا شاید تمہیں |
اک حقیقت بن گئی افسانہ تیرے شہر میں |
ساتھ تُو لایا ہمیں اتنا بھروسہ تجھ پہ ہے |
ہم نے سیکھا ہی نہیں چلّانا تیرے شہر میں |
جانتے ہو عشق میں پروا ہے کس کو جان کی |
جب جلی مشعل جلا پروانہ تیرے شہر میں |
نام تیرا لے کے ہم جس جس گلی میں بھی گئے |
اُس گلی میں سب ہوئے دیوانہ تیرے شہر میں |
جو بھی طارق جانتا تھا تجھ کو گرویدہ ہُوا |
کس نے اب تک بھی نہیں پہچانا تیرے شہر میں |
معلومات