لہو سے سیر حافظ کی نظر کیسے ہو سکتی ہے
تمنا قتلِ انساں کی ہنر کیسے ہو سکتی ہے
یہاں پر اپنے ہی تو مخبری کرتے ہیں اپنوں کی
نہیں ایسا تو دشمن کو خبر کیسے ہو سکتی ہے
چراغوں کو جلانے والے اپنوں سے پریشاں ہوں
وہاں خود ہی بتاؤ تم سحر کیسے ہو سکتی ہے
ملی کب ہے محبت کے تبادل میں محبت بھی
ہماری دی محبت یوں صفر کیسے ہو سکتی ہے
ہمیشہ ہی محبت کا دیا پیغام لوگوں کو
کسی کو مجھ سے نفرت اس قدر کیسے ہو سکتی ہے
ڈرا کر لوگ اپنے عہدے میں توسیع لیتے ہو
بھلا اعجاز کم ظرفی ظفر کیسے ہو سکتی ہے

13