| احوالِ دلِ زار بتاتے رہیں گے ہم |
| تجھ کو تو یہ اشعار سناتے رہیں گے ہم |
| اس عشق جنوں خیز نے چھوڑا نہیں کچھ بھی |
| اس شہر میں اب خاک اڑاتے رہیں گے ہم |
| کچھ یاد تری بوجھ نہیں یار، مگر سن |
| ہے بوجھ تو پھر بوجھ اٹھاتے رہیں گے ہم |
| جب تک رہے گا یار خبر گیر مرا تُو |
| قاصد کو تو بیمار بتاتے رہیں گے ہم |
| ہے داد تری میرے لئے نیک کمائی |
| دولت یہ میاں روز کماتے رہیں گے ہم |
| ہے یار وفا رسم مرے اپنے بڑوں کی |
| سو بار نبھائی ہے نبھاتے رہیں گے ہم |
| جب تک ہے خدا پاس مرے آہ پریدہ |
| یہ ارض و سموات ہلاتے رہیں گے ہم |
معلومات