کب رہا شیطاں سے آدم کو مفر
زندگی بھر ہر قدم تھا اُس کا ڈر
احتیاطاً بھی رکھی رفتار کم
یوں ہوا ہر موڑ پر اس کا گزر
دہر سے اتنی محبت ہو گئی
چھوڑنا چاہا نہیں پھر یہ نگر
جیسے رہنا ہے ہمیشہ اب یہاں
اس طرح اس نے گزارا ہے سفر
یاد رکھا ہی نہیں اپنا مقام
ہے وہ مسجودِ ملائک اک بشر
بھاگتا ہے خواہشوں کی دوڑ میں
کیوں یہاں بھیجا گیا یہ بھول کر
گرچہ اس کو ہے خدا ہی کی تلاش
ڈھونڈتا ہے جانے کیا کیا عمر بھر
اُس کو طارق اپنے اندر ڈھونڈ تُو
ہے تری شہ رگ سے جو نزدیک تر

0
13