میں خود کو وارنے محفل میں تیری آیا ہوں
جلا کے خود کو میں کندن بنا کے لایا ہوں
تمھارے ہونے کی خواہش میں خود کو توڑ دیا
میں ٹوٹ پھوٹ کے پھر سے نیا بنایا ہوں
وہ ایک خواب جو دیکھا تھا زندگی کے لیے
اس ایک خواب کی تکمیل کرنے آیا ہوں
تمھارے شہر میں تازہ گلاب بکتے ہیں
کنول کا پھول ہوں کیچڑ میں میں کھلایا ہوں
تو میرا ہو کے بھی میرا نہیں ہوا اب تک
تمھارا ہو کے بھی اب تک میں کیوں پرایا ہوں
وہ دن کو ڈھونڈتا پھرتا ہے مجھ کو گلیوں میں
جو آدھی رات کو نکلے میں ایسا سایا ہوں
وہ مجھ سے دور رہے زندگی سے پیار جسے
میں ایک زہر ہوں تریاق میں ملایا ہوں

0
52