میں دشتِ رنگ و بو کو اپنا جہان سمجھا |
اس نیلگوں فضا کو تھا آسمان سمجھا |
اک نُور کی کرن نے سِحْرِ نگاہ توڑا |
فانی جہان کو اور ظرفِ زمان سمجھا |
افکار میرے تھک کر ہستی میں رہ گئے تھے |
تیرے عروج سے جاں میں لامکان سمجھا |
النجم کہہ کے رب نے روداد جو کہی ہے |
آفاقِ ہست کے میں کون و مکان سمجھا |
تیرے جو شوق نے سب پردے اٹھا دیئے ہیں |
میں رازِ راز سمجھا ضبطِ بیان سمجھا |
ہیں پیچ و خم میں سارے اجرام یہ فلک کے |
اسریٰ سے عرش منزل رفتِ عنان سمجھا |
سوزِ دروں سے جگمگ ہیں دیپ انجمن کے |
میں وجہِ کن کو آخر عالم کی جان سمجھا |
باغاتِ خُلد کے اور منظر نظارے سارے |
غایت میں اُن کی سمجھا کن کا بھی دان سمجھا |
کیسے وجودِ گردوں اب تک رواں دواں ہے |
تیری وجہ سے ایزد ہے مہربان سمجھا |
پیدا نہیں ہے یوں ہی مقصودِ خلق بھی ہے |
نورِ جہان کو میں چمن کی آن سمجھا |
تصویر خود مصور کے فن کی ہے گواہی |
توصیفِ مصطفیٰ کو قادر کی شان سمجھا |
اک آگہی ملی ہے قُل سے مجھے اے محمود |
شارع کتابِ حق سے ہوں سرِّ بیان سمجھا |
معلومات