تو ہی قیامِ شوق ہے، تو ہی عروسِ شام بھی |
تیرے خرامِ ناز پر ،واری مہِ تمام بھی۔ |
جب سے اٹھا ہے وہ حجاب، دل میں ہے اک ہجومِ جشن |
سازِ طرب ہیں بج رہے، اور ہے رقصِ جام بھی۔ |
ان کی ادائے شوخ نے، لہرا کے تیغِ بے نیام |
فتح کیا یہ دل مرا، جاں کو کیا غلام بھی ۔ |
چلنا سنبھل سنبھل کے یہ، بھول بھلیّاں ہے جناب |
ہاں یہی جس کو 'راہِ عشق'، کہتے ہیں خاص و عام بھی۔ |
دیکھے ہیں جن کے واسطے، درد و الم تمام عمر |
چہرہ تو دور وہ حیاتؔ، بھول گئے ہیں نام بھی۔ |
معلومات