| اے دوست تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں |
| کے اس دنیا سے ملا کچھ بھی نہیں |
| جو بھی آیا بیٹھ گیا تیری چاؤں میں |
| اور میری محبت کا صلہ کچھ بھی نہیں |
| آجڑے گلستان میں کچھ بھول اگاۓ محبت کے |
| یار محنت فضول تھی کھلا کچھ بھی نہیں |
| خط خواب یادِ سب جلا کے آگیا |
| دلِ دہلیز پے دیکھا جلا کچھ بھی نہیں |
| اے ہمسفر کبھی یوں چھوڑ کے مت جانا |
| تیرے بغیر زندگی باخدا کچھ بھی نہیں |
| منتظر بھی اس شخص سے وفا مانگنے لگا |
| جو دے رسوائوں کے سوا کچھ بھی نہیں |
معلومات