| انتہائے فنا بقا ہے جنوں |
| عشق کی یعنی انتہا ہے جنوں |
| حق کی آغوش میں صدا ہے جنوں |
| کیسے جانے کوئی کہ کیا ہے جنوں |
| ہوش رہتا نہیں جنوں کو کبھی |
| ورنہ محبوبِ انبیا ہے جنوں |
| حق سے ملواتا ہے جنونِ عشق |
| اس طرح وصفِ اولیا ہے جنوں |
| نور پاتا ہے یہ قدم بہ قدم |
| ہاں تجلّی کا سلسلہ ہے جنوں |
| تصفیہ، نفس و دل کا کرتا ہے |
| اس لئے شانِ اصفِیا ہے جنوں |
| تذکیہ، تصفیہ کا مُشتق ہے |
| اس طرح طرزِ صُوفِیا ہے جنوں |
| وہ یقیناً قلندروں سے ہے |
| عشق نے جس کے پا لِیا ہے جنوں |
| اس کا مسکن ہے ذاتِ پاکیزہ |
| روح تک کو بھی چھانتا ہے جنوں |
| عشق کرتا ہے جب نماز ادا |
| راز کُھلتا ہے اس پہ کیا ہے جنوں |
| ہے جنوں کی رسائی گہری خودی |
| حق کا اعجازِ کبریا ہے جنوں |
| عشق جس میں ہے بے خلل کا جنوں |
| اس کا بے پردہ حق لِقا ہے جنوں |
| گُھٹنے لگتا ہے عشق جب دل میں |
| تب کہیں دل میں بولتا ہے جنوں |
| عشقِ ناقص میں ہو کہاں کا جنوں |
| پھر وہ کیا جانے کیا بلا ہے جنوں |
| عشقِ کامل کا عجز ہی ہے جنوں |
| عشق وہ عشق جو ہُوَا ہے جنوں |
| عشق چھپ چھپ کے عشق کرتا ہے |
| اور سر چڑھ کے بولتا ہے جنوں |
| یہ ہے قاتل انائے باطل کا |
| جان لے کر ہی مانتا ہے جنوں |
| اس میں جرأت ہے سب لُٹانے کی |
| اپنے معشوق پر فدا ہے جنوں |
| حسرت اقبالؔ میں جنون کی تھی |
| جانتا تھا کہ حق رسا ہے جنوں |
| رہبر اس کا ہے دم بہ دم معبود |
| عابد ایسا کہ با خدا ہے جنوں |
| اے ذکیؔ راز کھول دے یہ بھی |
| کیفِ دیگر کی ابتدا ہے جنوں |
معلومات