پریشان یوں ہی ہوا جا رہا ہے
کہ دنیا کی خاطر مرا جا رہا ہے
یہ ہر ایک ذرہ یہ گلزار سارا
پیام اس کا مجھ کو دیا جا رہا ہے
وہ کانٹوں کو بو کر کے کھیتوں میں اپنے
گلابوں کی حسرت کیا جا رہا ہے
جو کرتا تھا ہم سے وفاؤں کے وعدے
پرندوں کی مانند اڑا جارہا ہے
جفاؤں کا جب سے ہوا بول بالا
چراغِ محبت بجھا جا رہا ہے
وہ تم تھے کہ دیتے رہے زخم مجھ کو
تمہیں دے کے طالب دعا جا رہا ہے

0
26