حالِ دل بھی سنا نہیں سکتے
گیت کوئی بھی گنگنا نہیں سکتے
لوگ اکثر تو شعر پڑھتے ہیں
دردِ دل کیوں دکھا نہیں سکتے
اب تو اپنے ہی رُوٹھ جاتے ہیں
دل کو اپنے منا نہیں سکتے
ہم تو لفظوں سے کھیلتے ہیں رئیس
دل کی باتیں بتا نہیں سکتے

0
17