ڈسنے سے جن کے سانپ بھی جائے ہے جان سے
زہریلے اس قدر ہیں کچھ انساں زبان سے
۔
بنتی نہیں بنائے مری خاندان سے
گزرے ہے کیا؟ ہر ایک اسی امتحان سے
۔
کیسے کرے یقین کسی اور پر وہ گل
خطرہ جسے ہو اپنے ہی جب باغبان سے
۔
لب کھولنے سے پہلے کرو خوب غور تم
پھر تیر لوٹتا نہیں نکلا کمان سے
۔
ایسے کشیدتا ہوں غرض میں نصیب سے
فرہاد جیسے نہر کشیدی چٹان سے
۔
کردار میں عمل نظر آتا نہیں ترے
کچھ بھی بدل نہ پاۓ گا اپنے بیان سے
۔
کوئی خوشی بھی لوٹ کر آئے کبھی یہاں
نکلے کبھی تو غم کی نحوست مکان سے
۔
ہاتھوں سے اپنے دفن کیا ہے انھیں بھی یار
ہوتے تھے جو قریب کبھی اپنی جان
۔
دنیا غلامِ عقل نہ سمجھی یہ مسئلہ
مذہب پرے ہے عشق و وفا کا ، گمان سے
۔
شاید ملے سکون مدثر کو موت سے
وہ تھک گیا ہے روز نئے امتحان سے

0
12