یاد تیری ، ہمیں مدّت ہوئی آتی بھی نہیں
آ بھی جائے تو وہ پہلا سا ستاتی بھی نہیں
فصلِ گل کاٹتے تم کو بھی زمانہ گزرا
وہ جو خوشبو سی ، چمن میں ہے وہ جاتی بھی نہیں
چاند آنگن میں نئے طور سے جو ابھرا ہے
کیوں نظر چاندنی اس کی تمہیں آتی بھی نہیں
یونہی برسات کے موسم میں چلے آئے ہو
اشک ورنہ یہ مری آنکھ بہاتی بھی نہیں
داستاں اپنی اب اتنی بھی تو دل سوز نہیں
تیری پلکوں پہ جو موتی ہیں گراتی بھی نہیں
اس کے آ جانے سے رنگوں کی بہار آئی ہے
ورنہ آئی تھی خزاں ایسی کہ جاتی بھی نہیں
تم بھی ہو جاؤ گے دیکھو تو اسے دیوانہ
ہو گئی اس سے محبّت تو وہ جاتی بھی نہیں
طارق انداز تِرا اجنبی لگتا ہے ذرا
صاف کہہ دینے کی عادت تری جاتی بھی نہیں

0
77