مدت ہوئی اس کو تو کہیں دیکھا نہیں ہے
اور بیچ ہمارے کوئی بھی دریا نہیں ہے
خیرات محبت ہمیں تو دے یا نہیں دے
پر ہم کو ترے در سے کہیں جانا نہیں ہے
عامل کی پرستش میں کروں کیوں کر آخر
جو بھی ہو بشر پھر بھی خدا میرا نہیں ہے
بیزار سے لگتے ہو مجھے تم تو ابھی سے
پھر لوٹ چلو گھر ابھی کچھ ہارا نہیں ہے
پھر پھرا کے آتا ہے مرے پاس ہی کیوں کر
کیا شوبیؔ تیرا شیدا کوئی دوسرا نہیں ہے

128