| دور رہ کر جو تُو نے دئے مجھ کو غم |
| میں نے دیکھا کہاں تھا یہ طرزِ ستم |
| ہر نیا زخم تو نے لگایا ہمیں |
| ہر نئے سوز سے آشنا اب ہیں ہم |
| تھا فقط تیری چاہت کے ہی یہ سبب |
| جو جہاں میرا روشن تھا میرے صنم |
| بس نتیجہ ہے یہ سادگی کا مری |
| ہو گئے ہیں اسیرِ محبت جو ہم |
| سب ہی تیرے تحائف ہیں مجھ کو ملے |
| یہ دلِ ناتواں یہ مری چشمِ نم |
| یادیں تیری رہیں جو مرے ہر طرف |
| چلتی جائیں مرے ساتھ یہ ہر قدم |
| ہے وفاؤں کا جاری تو یہ سلسلہ |
| کرتے جائیں گے روداد اپنی رقم |
| کچھ شکایت کریں گے کبھی بھی نہ ہم |
| ہم نے رکھنا تھا تیرا ہمیشہ بھرم |
| دل دھڑکتا ہے میرا تو تیرے لئے |
| جینا تیرے لئے ہے خدا کی قسم |
| میرا محور رہا جو وہی ایک شخص |
| وہ گیا رک گئے زندگی کے قدم |
| ہے عنایت ہمایوں اسی کی یہ سب |
| میرے زخموں کی چیخیں ہیں اسکا کرم |
| ہمایوں |
معلومات