اپنے ہونے پہ مان تھا ہی نہیں |
جو تھا اس کا بیان تھا ہی نہیں |
نقش تھا پر مکان تھا ہی نہیں |
کسی شے کا نشان تھا ہی نہیں |
میں بھی جھوٹا تھا وہ بھی جھوٹی تھی |
اور کچھ درمیان تھا ہی نہیں |
جس ستارے کا وعدہ تھا شبِ غم |
وہ سرِ آسمان تھا ہی نہیں |
وہ یقینوں کا تھا یقین مگر |
مجھے اس کا گمان تھا ہی نہیں |
یہ زمانہ زمانہ ہی تھا مگر |
تو بھی تو مہربان تھا ہی نہیں |
اس جہانِ خراب میں مری جان |
مجھ کو اپنا بھی دھیان تھا ہی نہیں |
اس سے ہم ملتے تھے براہِ راست |
بیچ میں آسمان تھا ہی نہیں |
محفلِ خوش گمان میں دیکھو |
مجھ سا بھی بدگُمان تھا ہی نہیں |
تیرے ہونے کا اک فسوں تھا بس |
ورنہ تو درمیان تھا ہی نہیں |
جو تھا دردِ وجود کا قصہ |
وہ تو میرا بیان تھا ہی نہیں |
وہ مرا ہم سفر تھا ہمدم تھا |
وہ مرا ہم زبان تھا ہی نہیں |
معلومات