| ہے سن ابھی سولہ کا اک دنیا ہے شیدائی اس کی |
| شرماتے ہیں پھول اس سے ایسی ہے رعنائی اس کی |
| نازک بدن پھول سا جیسے شاخ پر ہو شگوفہ |
| لینے کو اک بوسہ شبنم ہوئی ہے سودائی اس کی |
| اک سمت جگنو کی ضو ہے اک سمت پھولوں کی رونق |
| بلبل ہے نغمہ سرا ایسی بزم آرائی اس کی |
| برسوں کی تیری ریاضت ہو جاۓ گی خاک پل میں |
| سنبھال توبہ شکن ہے زاہد یہ انگڑائی اس کی |
| لگتا ہے اب مار ہی ڈالے گی کسی دن یہ مجھ کو |
| اک قہر ہے اک قیامت ہے اف بے پروائی اس کی |
| ملک اسد |
| 7-5-20 |
معلومات