| میرے چمن کے بیچ خزاں آئی ہے تب سے |
| بھائی چارہ کا پودہ مرجھایا ہے جب سے |
| ہر نفس اندر یوں ہے نفسَ نفسی کا عالم |
| جیسے عرصہ محشر آ پہنچا ہو کب سے |
| جو بھی بولے ہے حق کٹ جائے اس کا سر |
| ہوتا ہے یاں سقراط کے دور کا آغاز اب سے |
| جس کی نعمتیں کھا کھا کے منہ ہو گئے ماندہ |
| اس کے شکر کا کلمہ بھی نہیں نکلا لب سے |
| گر خوں مرے سے ہو سکتی سیراب یہ مٹی |
| تو بلا خوف بہا دو لہو مرا پہلے شب سے |
| گرچہ احد رہ گیا ؔبارق اس دوراں بد میں |
| ظلمت شب کا تذکرہ پھر بھی گیا نہیں لب سے |
معلومات