سچ جرم ہے تو اس کی سزا دیجیے مجھے
منصور کی مثال بنا دیجیے مجھے
میں دل پہ نقش ہوں تو مٹا دیجیے مجھے
اے اہلِ سہسرام بھلا دیجیے مجھے
اب مجھ میں زندگی کی ذرا بھی رمق نہیں
میں ہوں چراغِ شام بجھا دیجیے مجھے
کہتا ہوں سچ کہ سچ کے سوا اور کچھ نہیں
سولی پہ چاہے آپ چڑھا دیجیے مجھے
آنسو ہوں بے بسی میں کبھی کام آؤں گا
بے صرفہ جان کر نہ بہا دیجیے مجھے
میں عرضِ حال کرلوں بیاں آپ اس کے بعد
دیوار سے ہی چاہے لگا دیجیے مجھے
امرت اگر نہیں نہ سہی زہر ہی سہی
کچھ تو محبتوں کا صلہ دیجیے مجھے
اک عمر کی تکان سے اے حضرتِ اجل
آنے لگی ہے نیند سلا دیجیے مجھے
صہبا نگاہ بارِ دگر آگیا ہوں میں
وہ دُختِ رز وہ جام پلا دیجیے مجھے
جتنی بھی زندگی تھی اسے جی چکا ہوں میں
جینے کی اب نہ اور دعا دیجیے مجھے
پی لوں جو ایک بار تو پھر اٹھ نہیں سکوں
ایسا بھی کوئی جام پلا دیجیے مجھے
راہی زبانِ حق پہ میں قائم ہوں چاہے آپ
سقراط کا پیالہ پلا دیجیے مجھے

1
31
اسلم صاحب بہت اچھی غزل ہے آپ کی - آپ کے توسط سے اس سائٹ پر ایک زمانے کے بعد کوئی ڈھنگ کی چیز پڑھنے کو ملی- مبارکباد قبول کیجیئے-

0