| سچ جرم ہے تو اس کی سزا دیجیے مجھے |
| منصور کی مثال بنا دیجیے مجھے |
| میں دل پہ نقش ہوں تو مٹا دیجیے مجھے |
| اے اہلِ سہسرام بھلا دیجیے مجھے |
| اب مجھ میں زندگی کی ذرا بھی رمق نہیں |
| میں ہوں چراغِ شام بجھا دیجیے مجھے |
| کہتا ہوں سچ کہ سچ کے سوا اور کچھ نہیں |
| سولی پہ چاہے آپ چڑھا دیجیے مجھے |
| آنسو ہوں بے بسی میں کبھی کام آؤں گا |
| بے صرفہ جان کر نہ بہا دیجیے مجھے |
| میں عرضِ حال کرلوں بیاں آپ اس کے بعد |
| دیوار سے ہی چاہے لگا دیجیے مجھے |
| امرت اگر نہیں نہ سہی زہر ہی سہی |
| کچھ تو محبتوں کا صلہ دیجیے مجھے |
| اک عمر کی تکان سے اے حضرتِ اجل |
| آنے لگی ہے نیند سلا دیجیے مجھے |
| صہبا نگاہ بارِ دگر آگیا ہوں میں |
| وہ دُختِ رز وہ جام پلا دیجیے مجھے |
| جتنی بھی زندگی تھی اسے جی چکا ہوں میں |
| جینے کی اب نہ اور دعا دیجیے مجھے |
| پی لوں جو ایک بار تو پھر اٹھ نہیں سکوں |
| ایسا بھی کوئی جام پلا دیجیے مجھے |
| راہی زبانِ حق پہ میں قائم ہوں چاہے آپ |
| سقراط کا پیالہ پلا دیجیے مجھے |
معلومات