| تجھ پہ جو اعتبار میں نے کیا |
| آنکھوں کو آبشار میں نے کیا |
| لوٹنا تو نے تو نہیں پھر بھی |
| خود کو کیوں بے قرار میں نے کیا |
| بے مزہ سی لگے محبت بھی |
| تجھ پہ کیوں انحصار میں نے کیا |
| کوئی تم سے نہ کر سکے گا یوں |
| جیسے تم سے ہے پیار میں نے کیا |
| حسن تیرا بیان کرنے کو |
| چاند کو مستعار میں نے کیا |
| اس طرح کیا محبتیں کرنی |
| یوں ہی خود کو نِثار میں نے کیا |
| جب ملی قوتِ تکلم کچھ |
| پھر کہاں اختصار میں نے کیا |
| کب کہا ہے جلال سے تم نے |
| تجھ پہ خود کو نِثار میں نے کیا |
معلومات