تیرگی میں دل کی لے کر روشنی آیا ہے کون
دشمنوں کی کر کے باتیں ان سنی آیا ہے کون
دوستی آپس کی چھُوٹی چھوٹی چھوٹی بات پر
اب مٹانے کو ہماری دشمنی آیا ہے کون
رات تاریکی میں آنگن کس قدر سُونا لگا
پھر کسی نے ہے بچھائی چاندنی آیا ہے کون
رت جگوں نے خواب چھینے کتنی آنکھوں سے مگر
آسماں سے اب سنانے راگنی آیا ہے کون
گو کبھی گنتی نہیں کی نعمتیں اتنی ملیں
دستِ شفقت کو بنائے اوڑھنی آیا ہے کون
جھوٹ سچ کی اس زمانے میں کہاں پہچان ہے
ہاں سنی گلیوں میں لیکن گفتنی آیا ہے کون
منہ کی باتیں تھیں فقط ان پر عمل کوئی نہ تھا
گفتنی جو ہو گئی ہے کردنی آیا ہے کون
کر نہیں سکتے خدا کا شکر ہم طارق ادا
اب ہمیں دینے دعائیں اَن گِنی آیا ہے کون

0
48