| قسمت مری چمکائیے بغداد کے والی |
| جلوہ مجھے دکھلائیے بغداد کے والی |
| مانا کے نہیں زادِ سفر پاس مرے پر |
| پھر بھی مجھے بلوائیے بغداد کے والی |
| غمگین مرے جتنے بھی احباب ہوئے ہیں |
| تسکین کو پہنچائیے بغداد کے والی |
| عصیاں کے سمندر میں شہا غرق ہوا ہوں |
| پھر سے مجھے تیرائیے بغداد کے والی |
| لاکھوں کو بلایا ہے شہا آپ نے در پر |
| اب مجھ کو بھی بلوائیے بغداد کے والی |
| وہ پیاری سی جالی وہ سہانا ترا گنبد |
| اب مجھ کو بھی دکھلائیے بغداد کے والی |
| ہے آرزو کہ پہنچوں ترے در پہ شہا میں |
| یہ آرزو بر لائیے بغداد کے والی |
| روتی ہوئی آنکھوں پہ مری چشم کرم ہو |
| اب دید بھی کروائیے بغداد کے والی |
| بے کیف و بے رنگ مری زیست ہوئی ہے |
| رنگِ رِضا بھر جائیے بغداد کے والی |
| طیبہ کا سفر ہو مرا ہر مہ ہی شہا اب |
| قسمت میں یہ لکھوائیے بغداد کے والی |
| ہے نورِ رضا ، سگ یہ شہا آپ کے در کا |
| روضہ اسے دکھلائیے بغداد کے والی |
| سگ رضا نور علی عطاری رضوی |
| 9 مارچ 2025 |
| 8 رمضان المبارک 1446ھ |
معلومات