زندگی جتنی مختصر دیکھی
اس سے بھی بڑھ کے بے خبر دیکھی
وصل کی رات اتنی چھوٹی کہ
آن کی آن میں سَحَر دیکھی
شہر میں بستیوں میں گلیوں میں
اتنی غربت کہ سر بسر دیکھی
جس کی شہرت تھی ساری بستی میں
آج گلیوں میں در بدر دیکھی
چُوم لیتا ہوں اس کی پیشانی
جس پہ پڑتی تری نظر دیکھی
جتنا پتلا قمر ہے راتوں کا
اس سے پتلی تری کمر دیکھی
یاد پڑتا ہے اس محلّے میں
ایک لڑکی ادھر اُدھر دیکھی
خود کُشی کر رہی ہے ناداری
پند و تلقین بے ثمر دیکھی
ٹھیک سمجھوں جسے وہ کہتا ہوں
گرچہ ہر بات بے اثر دیکھی
صبحِ نَو ہے نیا فسانہ کہو
یہ کہانی تو رات بھر دیکھی
کیوں پریشان و بے سکوں ہو امید
کیا کوئی رات بے سَحَر دیکھی

0
59