محور محیطِ ہستی وہ پاک ذات ہے
محبوبِ کبریا جو والا صفات ہے
تصویرِ خلق بے شک نورِ جمال اُو
اس روشنی سے ضَربِ تارِ حیات ہے
یہ نُور ہی چمک ہے اس نُور سے دمک
کافور اس تجلیٰ سے ظَلَمِ رات ہے
کونین بَرملا ہے ہمت سے دیکھ لیں
دلبر کو سب ملی یہ مولا سے دات ہے
سرکار کی گواہی ہستی میں زندگی
قائم کریم دم سے نخلِ حیات ہے
جو ہے ہوا جو ہو گا ناطق کتاب آپ
نقشِ قدم نبی پر راہِ نجات ہے
سب ظلمتیں فنا ہیں آئے حبیبِ رب
محمود مُنہ کے بَل جو لات و منات ہے

0
19