اس کو کبھی بھی مجھ سے محبت نہیں رہی
اب آ کے اس کو میری ضرورت نہیں رہی
ہر موڑ پر نشان اٹھاتا چلا گیا
اب اس نے یہ کہا ہے کہ مہلت نہیں رہی
ہر امتحان میں بھی تو دیتا چلا گیا
سچ بات یہ ہے مجھ میں بھی ہمت نہیں رہی
شکوے بہت تھے اس سے گلے زندگی سے تھے
اب آ کے زندگی سے شکایت نہیں رہی
چائے میں کچھ مزا نہ کتابوں میں دل لگے
شاہدؔ کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی

48