اس کو کبھی بھی مجھ سے محبت نہیں رہی |
اب آ کے اس کو میری ضرورت نہیں رہی |
ہر موڑ پر نشان اٹھاتا چلا گیا |
اب اس نے یہ کہا ہے کہ مہلت نہیں رہی |
ہر امتحان میں بھی تو دیتا چلا گیا |
سچ بات یہ ہے مجھ میں بھی ہمت نہیں رہی |
شکوے بہت تھے اس سے گلے زندگی سے تھے |
اب آ کے زندگی سے شکایت نہیں رہی |
چائے میں کچھ مزا نہ کتابوں میں دل لگے |
شاہدؔ کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی |
معلومات