روکِ نہ رُک سکے گا یہ ماتم حسین کا
کربل میں خوں کا بہتا ہے زمزم حسین کا
جسموں سے اپنے خون کے چشمے نکال کر
انصار رن میں بھرتے رہے دم حسین کا
کفار کی شکست ہے اور جیت دین کی
ہونے خدا نے سر نہ دیا خَم حسین کا
کٹوا کے سر ہے زندگی اسلام کو جو دی
بھرنے بھی کلمہ دین لگا دم حسین کا
برسی تھی آگ چرخ سے جلتی زمیں رہی
کربل میں پیاس کرتی ہے ماتم حسین کا
پائی رہائی شام کے زنداں سے جس گھڑی
اہلِ حرم منانے چلے غم حسین کا
صائب کے لب پہ رہتی ہے ہر وقت یہ دعا
میرے خدا مجھے ملے پرچم حسین کا

44