نہ میرا سر ہے سرا ڈور کا جو جل اٹّھے
نہ ہوں میں شمع سا جل جائے تو پگھل اٹّھے
یہ میری سوچ تھی ہر انتہائیں چھو آئی
یہ جبرئیل کے پر تو نہ تھے، جو جل اٹّھے
اے میری جہدِ مسلسل عجب ہے کیا اس میں
جو آج مجھ سے نہیں اٹھ سکی تھی کل اٹّھے
جھپکنا بھول گئیں اس کو دیکھ کر آنکھیں
وہ جس کو دیکھ کے آئینہ بھی مچل اٹّھے
زباں سے کوئی بھی شکوہ گلا کروں، مجرم
مگر یہ آنکھ جو بے اختیار ابل اٹّھے
کسے خبر ہے کہاں پر کسی کی کس لمحے
حیات ملتی ہی رہ جائے آنکھ اجل اٹّھے
ہاں انتظار کے، صدیاں نہیں تھیں، پر دل سے
میں کیا بتاؤں کہ کیسے وہ چند پل اٹّھے
تمہارے بہتے ہوئے آنسوؤں کی حدت سے
وہ ہم جو آہن و فولاد سے تھے گل اٹّھے
وہ آئے جوں ہی چمن میں حبیب نے دیکھا
گلوں کے رنگ تو کلیوں کے روپ اجل اٹّھے

0
39