ہم یاد سے تری ہیں خبردار صبح و شام
دل ہے مگر سکوں کا طلب گار صبح و شام
چلتی نہیں ہے سانس نکلتی نہیں ہے جان
اپنے لیے تو زیست ہے آزار صبح و شام
اس ہجر میں صنم کسی پاگل کی طرح ہم
کرتے ہیں اپنے آپ سے گفتار صبح و شام
گھیرا ہے مجھ کو ضعف نے عہدِ شباب میں
رہتا ہوں مدتوں سے میں بیمار صبح و شام
محشر میں ظلم کا نہیں دے گا کوئی حساب
اس زعم میں صنم ہے گرفتار صبح و شام
آنکھوں کے گرد حلقوں کا عاجز سبب نہ پوچھ
رہتا ہوں غم میں اس کے، میں بیدار صبح و شام

5