8۔7۔2024 |
غزل |
مجھےکچھ دیر شاید آزمانا چاہتا ہو گا |
منانے پر مرے وہ مان جانا چاہتا ہو گا |
خبر ہے یہ مجھے کس بات پر وہ روٹھ جاتا ہے |
تو کیوں ناراض ہونے کا بہانہ چاہتا ہو گا |
کہیں اس کو شکایت میری سستی کی ملی ہو گی |
اُسے شکوہ ہے مجھ سے ، یہ بتانا چاہتا ہو گا |
میں سہہ جاتا ہوں چپکے سے ، سُنوں کڑوی کسیلی جو |
مگر وہ شور اس پر کچھ مچانا چاہتا ہو گا |
بھروسہ اُس پہ کرتے ، تم نہ جانے کیوں سمجھ بیٹھے |
وہ راہ و رسم اوروں سے بڑھانا چاہتا ہو گا |
بڑھے جو ہاتھ بھی اس کی مدد کو جانتا ہے وہ |
وہ تیرا ساتھ بھی شانہ بہ شانہ چاہتا ہو گا |
نہیں آتا ، اسیری سے پرندہ خوف کھاتا ہے |
تو پھر وہ جال میں آنے کو دانہ چاہتا ہو گا |
بتا دیتا جو پہلے ہی مجھے وہ میری بخشش کا |
سمجھتا میں سبھی کو بس ڈرانا چاہتا ہو گا |
یونہی تعریف کے پُل باندھتا ہے کون دنیا میں |
کوئی نیکی تو مجھ سے بھی زمانہ چاہتا ہو گا |
کسی کو دوستی میں آزماتے یوں نہیں طارق |
تمہیں دستور پہلے یہ پڑھانا چاہتا ہو گا |
معلومات