چہرہ حسیں پلٹ کے دِکھایا نہیں کبھی
"ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہیں کبھی"
ہرجائی پن کی چالیں ہُوئیں آشکار جب
دوبارہ نظریں اپنی ملایا نہیں کبھی
تخریب کاری کی جڑیں مطلق مٹانے سے
ناپاک سازشوں کو رچایا نہیں کبھی
رنج و الم کے ابر گھنے چھائے تھے مگر
لب پر شکایتوں کو سجایا نہیں کبھی
آنکھوں سے پینے کی اُنہیں عادت کو دیکھ کر
ساقی نے جام پھر سے تھمایا نہیں کبھی
احساس بے وفائی کا ناصؔر ہو جانے سے
یادیں صنم کی دل میں بسایا نہیں کبھی

43