چہرہ حسیں پلٹ کے دِکھایا نہیں کبھی |
"ایسا گیا کہ لوٹ کے آیا نہیں کبھی" |
ہرجائی پن کی چالیں ہُوئیں آشکار جب |
دوبارہ نظریں اپنی ملایا نہیں کبھی |
تخریب کاری کی جڑیں مطلق مٹانے سے |
ناپاک سازشوں کو رچایا نہیں کبھی |
رنج و الم کے ابر گھنے چھائے تھے مگر |
لب پر شکایتوں کو سجایا نہیں کبھی |
آنکھوں سے پینے کی اُنہیں عادت کو دیکھ کر |
ساقی نے جام پھر سے تھمایا نہیں کبھی |
احساس بے وفائی کا ناصؔر ہو جانے سے |
یادیں صنم کی دل میں بسایا نہیں کبھی |
معلومات