جسم اتنے تھے کوئی سایا نہیں
میں نے بھی سو کسی کو پایا نہیں
میں کسی دشت کی طرف گیا تھا
اور پھر لوٹ کر میں آیا نہیں
عمر بھر خود کو ڈھونڈتا رہا میں
عمر بھر خود کو میں نے پایا نہیں
آیا تھا جب پلائی تھی اس نے
پھر کبھی ہوش میں میں آیا نہیں
رات کے چار بجنے کو ہیں یار
لگتا ہے آج بھی وہ آیا نہیں
کتنے چہرے نظر سے گزرے مگر
کوئی اِن آنکھوں میں سمایا نہیں
خود سے خود کو چھپایا ہے لیکن
آج تک تم سے کچھ چھپایا نہیں
دیکھتے رہ گئے سبھی کسی نے
ڈھوبتے لڑکے کو بچایا نہیں
میں خود اپنا عذاب تھا کسی نے
مجھ کو میرے سوا ستایا نہیں
تاق پر دل کے شمع رکھی گئی
پھر کسی نے اسے جلایا نہیں
یہ محبت تھی خط کوئی بے نام
جس کا کوئی جواب آیا نہیں
ہر حقیقت ہے بس سراب سراب
میں نے آئینہ تک سجایا نہیں
تم مرے پاس ہو، تعجب ہے
دل نے پھر بھی سکون پایا نہیں
ہم کسی کے لیے سمندر تھے
پر کسی نے ہمیں بہایا نہیں

20