دونوں آنکھوں میں یہ تضاد ترا
کیفے دل کا ہی ہے سراغ ترا
اف محبت میں سمجھ داری بھی
لگتا دل میں ہی ہے دماغ ترا
عشق دیوانگی کی حد تک ہے
نیند میری ہی ہےیہ خواب ترا
جان جاتی ہے جان کے بدلے
خوں بحا ہی ہے یہ گلاب ترا
بھول جاۓ سبق جو دیکھے تو
مثل جادو ہی ہے نصاب ترا
آہ پر واہ کیوں نکلتی ہے
دلکشی ہی ہے یہ نقاب ترا
شاہ غم تیرا مدعا تیرا
عشق ہی ہے نرا حباب ترا
شہاب الدین شاہ قنوجی

132