نام اس چیز کا محبت ہے
قربتِ یار میں ہی لذت ہے
اپنے دمساز کی ہیں یادیں بس
"خانۂ دل سرا کی صورت ہے"
من کے چلمن میں ایک ہلچل ہے
ہو چلی ہم قدم سے الفت ہے
حق بیانی سے ہچکچائیں کیوں
راست گفتاری ہی تو جرأت ہے
وقف ہوں مقصدِ حیات پہ ہم
خدمتِ قوم جی کو فرحت ہے
کس پہ اب فردِ جرم عائد ہو
حالِ ابتر سے ہوتی حسرت ہے
کوئی پُرسانِ حال ہے ناصؔر
فرقوں میں بٹ گئی جو امت ہے

0
49