| "تم آؤ تو سمجھو |
| کہ تمہارے بعد بکھرے ہوئے پھولوں کی طرح |
| میری زندگی بھی بکھری پڑی ہے۔ |
| میری ہر صبح پرندوں کی مانند |
| ایک آشیانے سے دوسرے آشیانے کی سمت |
| کھوئی فضاؤں کے راستوں میں گم ہے۔ |
| میرے دن خود کی تلاش میں سرگرم |
| کسی صحرا میں کھو چکے ہیں۔ |
| میری شامیں اداس لمحوں کی رنگینی سے بے تکلم ہیں |
| اور وہی ادھڑے ہوئے رنگ اپنا فرض جانتے ہوئے |
| میرے خواب اور خیالوں میں بُن رہی ہیں۔ |
| میری راتیں سکون کی تلاش میں ایک ایسے بنجارے کی مانند ہیں |
| جسے ہر موڑ پر اپنی منزل کا تعین کرنا پڑتا ہے |
| اور قدم بڑھاتے ہی اسے راستے کی تھکاوٹ چور کر دیتی ہے۔ |
| میرا دل اس تتلی کی طرح ہے |
| جو گل بہ گل کسے شوخ رس کو چاہتی ہے |
| مگر قسمت کی دھری اس کی نظریں |
| بہاروں کے ہوتے ہوئے بھی |
| کسی خزاں رسیدہ پھول پر جا رکتی ہیں۔ |
| تمہارے بعد ہر بدلتا موسم |
| میرے لیے خزاں کا روپ اختیار کر کے آتا ہے۔ |
| میں تمہیں اپنی بیزاری اپنی تنہائی اپنی خفگیت کی حقیقت تو بتاؤں |
| مگر یہ ممکن نہیں۔ |
| تمہیں بتاؤں بھی تو کیسے |
| کہ تم میرے خوابوں کے مکین ضرور ہو |
| مگر میرے سامنے موجود نہیں۔ |
| تم یہ حقیقت جانو تو سمجھو |
| کہ میں تم بن "میں" نہیں رہا۔ |
| تم آؤ تو سمجھو" |
معلومات