کیسے کہوں گزرا ہے کیا کیا میرے ساتھ
میرا مقدر جب سے الجھا میرے ساتھ
ویسے بھی اس صحرا میں کرنا تھا سفر
کیا اچھا رہتا تو جو چلتا میرے ساتھ
مجھ سے جھگڑتا اور لڑتا میرے ساتھ
پر کیوں کیا ہے اس نے ایسا میرے ساتھ
میں بدنصیب اب جہاں بھی جاتا ہوں
چلتا ہے تنہائی کا صحرا میرے ساتھ
یہ نیند کے کالے جزیرے خالی ہیں
دل کو ہوا کل رات جھگڑا میرے ساتھ
تو شہر میں تھا تو یہ دل آباد تھا
ہر سانس ہے بن تیرے دھوکہ میرے ساتھ
پہلے پہل اس کو تھا تیرا آسرا
روتا ہے اب دل میرا تنہا میرے ساتھ
اِک شوق تھا اس کی رفاقت کا مجھے
پھر مر گیا وہ شوق میرا میرے ساتھ
یوں زخم دے کر مُسکراتا وہ رہا
جیسے کہ ہو ہمدرد میرا میرے ساتھ
اس شہر میں بس وہ تھا میرا ہمسفر
اب کون شاموں کو پھرے گا میرے ساتھ
اک دشت میں رکھا تھا اس نے یہ وجود
پھر وقت کا دریا بہایا میرے ساتھ
مجھ کو مرے سائے سے بھی رکھا جدا
کیا وقت نے بھی کھیل کھیلا میرے ساتھ

48