یار نے بدنامیاں کی یار کی |
بس یہی تو ریت ہے سنسار کی |
آپ پہلے کامیابی پائیے |
پھر امیدیں دیجیے گا پیار کی |
بس دوا کافی نہیں ہے اس لئے |
کچھ عیادت کیجیے بیمار کی |
یار میرا خوش ہے مجھ سے جیت کر |
میں خوشی کیوں نا مناؤں ہار کی |
لن ترانی ایک کو بولا گیا |
ایک کو لذت ملی دیدار کی |
آپ مجھ سے بات ہی مت کیجیے |
ختم کیجیے جنگ یہ ہر بار کی |
زندگی سونپی تھی میں نے آپ کو |
آپ نے ہی ز ندگی دشوار کی |
بس خوشامد حاکموں کی درج ہے |
دیکھیے حالت ذرا اخبار کی |
آپ کا سب مان لیتا ہوں کہا |
میں نہیں سنتا کسی سرکار کی |
حسن بکتا دیکھ کر خالدؔ مجھے |
یاد آئی مصر کے بازار کی |
معلومات