گُل سراپا چشم خوباں مہ جبیں |
شکلِ جاناں حسنِ عالم کی امیں |
ایک عرصہ پہلے دیکھی تھی کہیں |
جس پہ دل میں ہار بیٹھا تھا وہیں |
دل بیاباں آنکھ صحرا تھی مری |
اُس سے ملنے کی تمنا تھی مری |
ٹوٹ جاتے ہیں یہاں آ کر غرور |
دل فدائے حسن ہوتا ہے ضرور |
میرا تو اِس میں نہیں ہے کچھ قصور |
یہ نظر کا ہے یا دل کا ہے فتور |
جانے کیسے یہ شرارت ہو گئی |
اس کو دیکھا تو محبت ہو گئی |
خوف کھانا مرد کی فطرت نہیں |
وصل و فرقت پر مگر قدرت نہیں |
یہ کوئی مشکل نہیں زحمت نہیں |
بات کرنے کی اگر ہمت نہیں |
دل کہے چل آنکھ بھر کے دیکھ لے |
چاند سی صورت پہ مر کے دیکھ لے |
رہ نہ جائے کوئی بھی دل میں کسک |
پیار میں اچھی نہیں ہوتی جھجھک |
اس سے پہلے میرا دشمن ہو فلک |
چاہتا تھا بات پہنچے اُس تلک |
ایک دن دیکھی سہیلی اس کی خاص |
لگ گئی پیغام پہنچانے کی آس |
میں تو تھا بے تاب بے بس صدمے میں |
آگیا بس تیسرے کے کہنے میں |
دیکھتے ہی دیکھتے اِک لمحے میں |
آزمائش آ گئی اس رشتے میں |
انتہائی دکھ ہے مجھ کو میرے یار |
غیر پر میں نے کیا ہے اعتبار |
اے صنم میرے مجھے کرنا معاف |
میرے بارے میں دل اپنا رکھنا صاف |
بعد مدت کے ہوا یہ انکشاف |
تھا منافق کی وجہ سے اختلاف |
آج بھی لیکن محبت تم سے ہے |
رات ہو یا دن محبت تم سے ہے |
ہائے رے انساں میں جانور تھا نہاں |
اک خبیث النفس نے اے مہرباں |
مجھ کو کر رکھا تھا تجھ سے بد گُماں |
بے وفا تو میں نہیں تھا جانِ جاں |
جس کے باعث میں جدا تجھ سے ہوا |
وہ منافق تیسرا ہی شخص تھا |
معلومات