نظم: محبت اور تیسرا شخص
گُل سَراپا, چشم خوباں, مہ جَبیں
وہ گُلابی ہونٹ وہ صورت حَسیں
ایک عرصہ پہلے دیکھی تھی کہیں
جس پہ دل مَیں ہار بیٹھا تھا وَہِیں
دل بیاباں آنکھ صحرا تھی مِری
اُس سے ملنے کی تمنا تھی مِری
ٹوٹ جاتے ہیں یہاں آ کر غرور
دل فِدائے حُسن ہوتا ہے ضرور
میرا تو اِس مِیں نہیں ہے کچھ قصور
یہ نظر کا ہے یا دل کا ہے فتور
جانے کیسے یہ شرارت ہو گئی
اُس کو دیکھا تو محبت ہو گئی
خوف کھانا مرد کی فطرت نہیں
وصل و فرقت پر مگر قدرت نہیں
یہ کوئی مشکل نہیں زحمت نہیں
بات کرنے کی اگر ہمت نہیں
دل کہے چل آنکھ بھر کے دیکھ لے
چاند سی صورت پہ مر کے دیکھ لے
رہ نہ جائے کوئی بھی دل میں کَسَک
پیار مِیں اچھی نہیں ہوتی جِھجَھک
اِس سے پہلے میرا دشمن ہو فَلک
چاہتا تھا بات پہنچے اُس تَلک
ایک دن دیکھی سہیلی اُس کی خاص
لگ گئی پیغام پہنچانے کی آس
مَیں تو تھا بے تاب بے بس صدمے مِیں
آگیا بس تیسرے کے کہنے مِیں
دیکھتے ہی دیکھتے اِک لمحے مِیں
آزمائش آ گئی اِس رشتے مِیں
انتہائی دکھ ہے مجھ کو میرے یار
غیر پر مَیں نے کِیا ہے اعتبار
اے صنم میرے مجھے کرنا معاف
میرے بارے مِیں دل اپنا رکھنا صاف
بعد مدت کے ہُوا یہ انکشاف
تھا منافق کی وجہ سے اختلاف
آج بھی لیکن محبت تم سے ہے
رات ہو یا دن محبت تم سے ہے
ہائے رے انساں مِیں جانور تھا نِہاں
اک خَبیثُ النفس نے اے مہرباں!
مجھ کو کر رکھا تھا تجھ سے بد گُماں
بے وَفا تو مَیں نہیں تھا جانِ جاں
جس کے باعث مِیں جُدا تجھ سے ہُوا
وہ منافق تیسرا ہی شخص تھا
محمدشاہدؔعلی صابری

0
30