*ایک نوجوان کی دعا* |
کیوں ریاضِ دہر میں پژمردہ رُو اک گل ہوں میں |
گلشنِ ہستی میں کیوں آشفتہ سر بلبل ہوں میں |
اک طرف روتی ہیں آنکھیں غارتِ دیں دیکھ کر |
اک طرف نالاں ہے دل کہ ہوں میں اُس سے بے خبر |
اک طرف محبوب سے محبوب تر محبوب دیں |
اک طرف ہے دشمنِ جاں، آہ میں جاؤں کدھر |
راستے دلکش نظاروں سے ہوئے آراستہ |
ہے سحر انگیز جانِ جاں کا یہ رنگیں سفر |
فرق کیا ہے جان و دل ، محبوب و دیں کے درمیاں |
جانتا ہوں، کیا کروں پر ، جان کر ہوں، بے خبر |
راہیٔ راہِ محبت ہوں سراپا جستجو |
زندگی صحرا ہوئی، ہوں مجنوۓ شوریدہ سر |
ہوں پریشاں حال کہ آسودگی ملتی نہیں |
بہہ رہا ہے اشک کی صورت مرا خونِ جگر |
عقدۂ دل کی کشائی ہو کہ اک عرصہ ہوا |
واعظوں کے وعظ بھی ہیں مجھ پہ اب تک بے اثر |
نالۂ قلبِ حزیں کو سن کہ ہے ماتم کناں |
ہے تری رحمت کی جانب کب سے عاصی کی نظر |
ایک مدت سے گرفتارِ طلسمِ حسن ہوں |
ڈھونڈتا پھرتا رہا عالم میں اپنا ہم سفر |
رہ گزر ویران ہیں نظروں سے اوجھل ہو گیے |
راہرو راہِ محبت باندھ کر رختِ سفر |
اک حسینِ گل بدن پردہ نشیں سینے میں ہے |
کیا بتاؤں کتنی دشواری مجھے جینے میں ہے |
حبِّ مذہب باعثِ تسکینِ قلب و جاں مجھے |
ہو عزیز از جاں مجھے ملت ہو جانِ جاں مجھے |
اک طرف مقصودِ ہستؔی اک طرف محبوبؔ ہے |
کر خداوندِ زمین و آسماں شاداں مجھے |
شوقِ دیدارِ محبت میں نہ ہوں میں بے قرار |
اس قدر دشوار تر ہو زندگی آساں مجھے |
زندگانی ہو مری تیری محبت میں فنا |
ہو فراقِ ماہ و انجم بھی قرارِ جاں مجھے |
نور افشانی کروں ظلمت کدۂ بزم میں |
عصرِ نو کی رات میں کر مثلِ مہ تاباں مجھے |
مثلِ بُو بزمِ دو عالم میں رہوں میں شادماں |
گلشنِ ہستی میں کر مانندِ گل خنداں مجھے |
ظلمتِ شب کے لئے، قاتل، امیدِ صبحِ نو |
وادئ پر خوار میں کر اے کہ گل افشاں مجھے |
بزمِ عالم میں مثالِ مہرِ تاباں کر مجھے |
شمعِ ہستی سے چراغاں ہو کہ کر سوزاں مجھے |
شمع کی امید میں سودائیٔ پروانہ ہوں |
وصل کی امیدِ رکھے تا نفس کوشاں مجھے |
تیری قربت ہو میسر دورِ پر آشوب میں |
وصل کی لذت کشی سے کر سدا نازاں مجھے |
عشقِ" غیر اللہ" کی لذت سے دل معمور ہے |
میں وہ "موسی" ہوں کہ جس کا بے تجلی طور ہے |
قوم و ملت کی محبت سے مجھے سرشار کر |
غیر قوموں کے لئے شمشیرِ بے زنہار کر |
عزمِ اوّلؔؓ ، نظمِ ثانیؔؓ، جودِ ثالثؔؓ کر عطا |
قوتِ کرارؔؓ دے ، مانندِ ذولفِقار کر |
جرأتِ پیہم عطا کر شوکت و جاہ و جلال |
رزمِ مرگ و زیست میں ہم پہلوۓ ضرارؓ کر |
دے کے فکرِ قوم و ملت کر مثنّٰیؔ ہم نشیں |
موت سے ہو آشنائی زندگی دشوار کر |
سعدؓ و سلمؓاں بو عبیؓدہ کی معیت ہو نصیب |
بزمِ ہستی کو مری عزم و یقیں سے چار کر |
پاسبانِ عظمتِ اسلام ایوبؔی صفت |
حق و باطل کی جھڑپ میں ٹیپوؔ کی تلوار کر |
جل رہی ہیں آتشِ نمرودِ حاضر میں امم |
پھر براہیموں کی خاطر آگ کو گلزار کر |
شوقِ رفعت قوتِ پرواز پھر پیدا کرے |
پھر سہانے خواب دے کر آنکھ کو بیدار کر |
رازِ الفت کا نگاہوں کو بھی کر دے رازداں |
دل کو دل سے آشنا کر طالبِ دیدار کر |
توڑ ڈالیں یہ غلامیت کی زنجیریں تمام |
پھر اسیروں کو جہاں میں صاحب و مختار کر |
بازوۓ خالدؓ عطا کر قوتِ کرارؓ دے |
گلشنِ اسلام کی تزئین میں کردار دے |
. (شاہؔی تخیلات) |
شاہؔی ابو اُمامـه شــؔاہ ارریاوی |
معلومات