لے کے بیٹھا قلم تھا پرانی روِش
کوند جائے خیالات کی اِک تپش
لفظ پہلا جو لکھا تو پوچھا کیے
کیسے زندان خانے میں پَل پَل جیے
نکلیں زندان خانے سے جائیں کہاں
وادیوں کی طرف! کچھ بتا جانِ جاں
یا جگہ وہ بتا ، ہو جو محفوظ بھی
دل معطر کرے اور محظوظ بھی
مدتوں سے وہاں خوف و خطرہ نہ ہو
بحرِ رنج و الم کا بھی قطرہ نہ ہو
آدمی ، آدمی کو نہ نوچے وہاں
راہِ اغیار کا ہو نہ کوئی نشاں
بغض ، کینہ نہ ہو ، نا عداوت کا غم
دل میں اٹھے خلش ، نا بغاوت کا غم
چاند راتوں میں تاروں بھری رات ہو
چاند اُترے زمیں پر ، تری بات ہو
بات ایسی جو کانوں میں رس گھول دے
روحِ مضطر کی ہر اِک گرہ کھول دے
خامشی ہر طرف سے ہو چھائی ہوئی
بادِ فرحت تبسّم ہو لائی ہوئی
بھینی بھینی مہک ، تیری آغوش ہو
وقت تھم جائے عالَم بھی خاموش ہو
زُلفِ خم دار لہرائے رخسار پر
مسکراتی رہے طرزِ گفتار پر
تو جو بولے چمن بھی ہو نغمہ سرا
اور بلبل بھی کہتا پھرے مَن کُجا
کیف و مستی کا منظر کروں کیا بیاں
ہوگا خُلدِ بریں جیسا دل کش سماں
دل کی دھڑکن سے پیدا ہوا ساز جو
اس نے افشاں کیا دفن تھا راز جو
نسل در نسل اک یہ حراست ملی
دولتِ عشق مجھ کو وراثت ملی
اس وراثت کے ہم ہی نگہباں ہوئے
یعنی دشتِ صحارا کے مہماں ہوئے
آؤ رسمِ وفا کو نبھاتے چلیں
سب قرینے جفا کے مٹاتے چلیں
راہِ الفت پہ چلتے نہ ہاریں گے ہم
آخری سانس تک جان واریں گے ہم
کوئی دنیا میں ایسی بتا سر زمیں
جانِ جاں جس کے ہو جائیں ہم بھی مکیں
یوں خیالی پلاؤ پکاتا ہوں میں
نقشِ بے کار اکثر بناتا ہوں میں
میری سوچی ہوئی سر زمیں بھی کہیں
مجھ کو ایسے لگا اِس جہاں میں نہیں
جسم و جاں میں تھی ہلکی سی اک جو رمق
اس کا اب تک ہے مجھ کو بَلا کا قلق
جب کھلی آنکھ دل تو گیا ہی پھڑک
میرے گونجے تھے نالے زمیں تا فلک
خواب ہی خواب میں تھی کہانی بُنی
دل گرفتہ نے دنیا کی کیا ناں سُنی
جس نے دھندلا دیا عکسِ محبوب کو
لے چلو گاہِ مقتل پہ مجذوب کو
یوں قلم رات ، دن مَیں چلاتا رہوں
دل لُبھاتا رہوں ، گیت گاتا رہوں
سوزِ دل کو سحر سازِ مضراب دے
خوابِ رنگین کو ایک مہتاب دے

0
41