خیالِ یار میں ہم بے خیال ہی پھرے ہیں |
جب اس گلی سے اُٹھے پھر گلی گلی پھرے ہیں |
اکیلا تو نہیں پھرتا رہا میں دھوپ کے شہر |
سفر میں ساتھ مرے میرے سائے بھی پھرے ہیں |
نہ پوچھو شام و سحر کیسے ہم برہنہ پا |
تری تمنا لیے دشتِ تشنگی پھرے ہیں |
یہ جو پرندے ابھی بیٹھے ہیں شکستہ پر |
کسی زمانے سرِ آسمان بھی پھرے ہیں |
ہمیں خبر نہ ہوئی دل کے زخم کتنے تھے |
خود اپنے آپ سے برسوں الجھتے ہی پھرے ہیں |
ہوا کے دوش پہ رکھے تھے ہم نے اپنے قدم |
ہم اپنی ذات کے رستے میں سر سری پھرے ہیں |
جو بات کہنی تھی دل کی زبان سے تم کو |
وہ حسرتیں بھی لبوں پر دبی دبی پھرے ہیں |
تلاشِ یار میں ہم بے خودی میں کھوئے رہے |
سحر کی آس لئے شامِ بے بسی پھرے ہیں |
اے میرے دل تو جہاں زخم بیچنے آیا |
اسی گلی سے کبھی میر و مصحفی پھرے ہیں |
معلومات