آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگے
دوست تھے اچھے، عدو ہونے لگے
جب کبھی برسات میں چھائے گھٹا
دل میں پیدا آرزو ہونے لگے
کیا خبر اِس خاک کے ذرّے کی بھی
آسماں سے گفتگو ہونے لگے
پیاس میں ہم سے بہت چوسے گئے
ہونٹ جو تیرے لہو ہونے لگے
لو اِدھر دیکھو اُدھڑنے کے لیے
زخم سینے کے رفو ہونے لگے
آئینہ اندام رکھ کر سامنے
وہ ہمارے روبرو ہونے لگے
وصل کی شب آپ، ہم، تنہاؔ رہے
اپنے چرچے کُو بہ کُو ہونے لگے

0
340