آپ اپنی بے گناہی کی نہ قسمیں کھائیے
ہاں مگر سچ بات کہنے سے نہ یوں شرمائیے
اب تو ظاہر ہو گیا ہے کتنے پانی میں ہیں آپ
آپ جو چاہیں کہیں ہم سے نہ منہ کھل وائیے
اب تو ہم مرضی سے اپنی جائیں گے جب دل کرے
آپ سے کس نے کہا تھا ہم کو گھر بل وائیے
دوستوں کو ساتھ آنے کی تو دعوت ہم نے دی
ہم سنبھالیں گے انہیں یوں آپ مت گھبرا ئیے
جو بھی ہو تکلیف کانوں کو کریں گے معذرت
ہم سنیں گے آپ بس خوشیوں کے نغمے گائیے
آپ کی تحریر سے تقریر سننا ہے بھلا
اب نہ یوں جھوٹی محبّت کا یقیں دل وائیے
لوگ سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں یہاں
کیا ہی اچھا ہو اگر ماحول کو گرمائیے
جانتے ہیں آپ طارق ہم ہوئے دل کے مریض
ہم ہمہ تن گوش ہیں جو جی کرے فر مائیے

0
13