دُکھوں میں رہ کر عذاب جھیلیں ، یہ زیست کیسے شُمار کر لیں |
یہ کیا کہ گلشن کے سبز پتوں کو زرد ، پھولوں کو خار کر لیں |
کسی کے بے جا سلوک سے دل دُکھا بھی ہو تو بھُلا کے اُس کو |
مٹا کے رنجش معاف کرنے کے پھر بہانے ہزار کر لیں |
ہے دھوپ چھاؤں کا کھیل سارا کبھی ہے گرمی کبھی ہے سردی |
ہے زندگی تو یہی کہ دیکھیں خزاں اگر تو بہار کر لیں |
جہاں پہ بوتے ہیں لوگ نفرت اگیں گی فصلیں عداوتوں کی |
ہے چاہئے بانٹ لیں محبّت وہ دشمنوں سے بھی پیار کر لیں |
وطن کی حالت زبُوں جو دیکھیں تو خوں کے آنسو فقط نہ روئیں |
لہو سے سینچیں کچھ اس طرح سے چمن کو پھر لالہ زار کر لیں |
کسی کی بے چارگی میں اس کی مدد کریں اس کا ہاتھ تھامیں |
تو ایسی حالت میں فکر یہ ہو نہ ہم سے آنکھیں وہ چار کر لیں |
ہمارا شکوہ خدا کے آگے ہے اس کی خاطر ہی دُکھ سہا ہے |
کہا جو طارق وہ سچ کہا ہے ہمارا بھی اعتبار کر لیں |
معلومات