گو پر تو نہیں پھر بھی آزاد نہیں کرنا |
نا شاد رکھو مجھ کو تم شاد نہیں کرنا |
قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تمہیں بونا |
بونا ہی رکھو مجھ کو شمشاد نہیں کرنا |
تم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں |
شیریںؔ نہ سمجھ بیٹھو، فرہادؔ نہیں کرنا |
ایسے نہ اجڑ جانا دیکھو تو کہیں تم بھی |
بستی ہی کوئی دل کی آباد نہیں کرنا |
جو ذہن کے ریشوں میں رچ بس کے رہا اس سے |
کیسے یہ کروں وعدہ اب یاد نہیں کرنا |
اس شہر کے حاکم نے یہ حکم کیا جاری |
کچھ بھی ہو کوئی ہرگز فریاد نہیں کرنا |
بس ایک انا پائی، گھر اپنا لُٹا بیٹھے |
اے بیٹیو! اے بیٹو! اضداد نہیں کرنا |
تہذیب بتا دے گی، تم کتنے مہذب ہو |
ظاہر ہی کسی پر تم اسناد نہیں کرنا |
کُچھ وقت کبھی ہم نے اِک ساتھ گُزارا ہے |
اب جور و جفا حسرتؔ، بے داد نہیں کرنا |
معلومات