چلیں آندھیاں کسی پیڑ کو بڑی چاہتوں سے بچا لیا
دیا باغباں نے جو سائباں ہے تمازتوں سے بچا لیا
لگِیں بے وفائی کی تہمتیں اٹھیں انگلیاں جو مری طرف
مری ہجرتوں نے وطن میں مجھ کو ملامتوں سے بچا لیا
میں ہوں خوش نصیب کہ روشنی ملی ایسی علم و شعور کی
ملا علم وہ مجھے مد رسوں کی جہالتوں سے بچا لیا
کِیا رب سے مجھ کو یوں آشنا مجھے آگہی کا دیا سبق
مجھے بے لگام معاشرے کی کثافتوں سے بچا لیا
مجھے رہنما وہ ملا چلا مرے ساتھ ہاتھ وہ تھام کر
ہوا نو جواں تو اسی نے کتنی حماقتوں سے بچا لیا
نہیں آ سکا میں اگر یہاں کسی دلرُبا کے فریب میں
مرے سر پہ میرا خدا رہا بُری ساعتوں سے بچا لیا
مرے دست و پا لئے آزما نہ ہلا سکے مجھے ابتلا
مری تربیت تھی جو سخت اُس نے ہلاکتوں سے بچا لیا
مجھے حقِّ رائے دہی تو تھا اسے چھین کر کیا بے زباں
مجھے کیا گلہ مرے ربّ نے گندی سیاستوں سے بچا لیا
جو ملا ہے ورثہ وہ دین کا ہے تو شکر اس پہ خدا کا ہے
جو کِیا الگ تو خصومتوں کی وراثتوں سے بچا لیا
میں تھا ایک طارقِ بے نوا مجھے کی زباں ہے رواں عطا
میں ہزار شکر کروں ادا مجھے لُکنتوں سے بچا لیا

0
7