کتنے رنج و الم سے گزارے گئے
جن کے سینے میں بارود اتارے گئے
نام جن کے فلک سے پکارے گئے
علم کے راستوں میں جو مارے گئے
☆ ☆ ☆
اپنے والد کے واحد سہارے تھے وہ
اپنی امی کی آنکھوں کے تارے تھے وہ
تم کو معلوم ہے کتنے پیارے تھے وہ
علم کے راستوں میں جو مارے گئے
☆ ☆ ☆
پھول معصوم تھے اور جاذب نظر
ان سبھی سختیوں سے ابھی بے خبر
تھیں مگر ان کی عمریں بڑی مختصر
علم کے راستوں میں جو مارے گئے
☆ ☆ ☆
مٹ گیا آج سب دشمنوں کا بھرم
رک گئیں گولیاں ، کب رُکا ہے قلم
اور منزل ہے پھولوں کی باغِ اِرم
علم کے راستوں میں جو مارے گئے

0
90