آ کے یادوں میں حسیں ان کو بنا جاتے ہو
آؤ جب سامنے کچھ اور غضب ڈھاتے ہو
یاد جب تک نہ کرو چاہنے والے اپنے
تم کہاں سوتے ہو آرام کہاں پاتے ہو
سیکھ لیں امن سے رہنا یہ زمانے والے
ان کو خط لکھتے ہو جا جا کے بھی سمجھاتے ہو
وہ جو انسان نے توڑا ہے خدا سے ناطہ
اس تعلّق کی طرف آنے کا بتلاتے ہو
اعلٰی اخلاق بھلا بیٹھے ہیں دنیا والے
تم انہیں ان پہ عمل کر کے بھی دکھلاتے ہو
لاکھ کوشش کریں دشمن کہ ٹھہر جاؤ تم
ابتلاؤں میں قدم آگے ہی بڑھاتے ہو
ہو وہی دھاگہ پروئے گئے موتی جس میں
لڑکھڑائے جو عصا اس کا بھی بن جاتے ہو
طارق اُس حُسنِ مجسّم کے لئے صاف کہو
اس کے عاشق ہو اسی بات پہ اِتراتے ہو

0
64