جلوہ زرا اپنا تو دکھا دے
ورنہ مجھے خود سے مِلا دے
حِصّہِ انسانیت ہیں سب
کاسہِ سر میں اتنا بٹھا دے
رنگیں خُوں سے شمشیر ہوئی خوب
ہاتھوں میں ہمشیرہ کے حنا دے
ختم ہو نفرت سب سے مری بھی
چہروں میں میرا عکس دکھا دے
دل رہا دنیا میں غافل دن بھر
شب میں بِچھونا میرا ہِلا دے
دیکھتے ہیں زرخیزی زمیں پر
گلستان اک بیباں میں بنا دے
اپنا تراش تُو جوہرِ یکتا
احساسِ خودی کو جِلا دے
مِؔہر سے وابستہ ہیں امّیدیں
دشت میں گُل ایسا کھِلا دے
-------٭٭٭------

0
74