گہرا اثر ہوا ہے بزرگوں کی بات کا
یا معجزہ ہے دل کی کسی واردات کا
میری سبھی محبّتیں اب اس کے نام ہیں
مالک ہے وہ جو ساری مری کائنات کا
کرنے کو پیش اس کو مرے پاس کچھ نہیں
رکھے گا کیوں حساب مرے واجبات کا
آئے وہی نظر مجھے ہر شے میں اب یہاں
ہر سمت آئنہ وہی تجلّیات کا
باقی وہی بچا نہیں جس کو کبھی فنا
جاری ہے ورنہ سلسلہ موت و حیات کا
دستک تو دے کے دیکھ کبھی کھولتا ہے وہ
اس نے کبھی نہ بند کیا در نجات کا
محدود کر لیا ہے جو اپنی ہی ذات کو
تو کیسے جان پائے گا بھید اس کی ذات کا
الفت میں اس کی دل مرا پگھلا تھا ایک بار
طارق یہ تذکرہ ہے اسی ایک رات کا

0
32